Aag Ka Darya By Unza younus

Aag Ka Darya By Unza younus

Aag Ka Darya By Unza younus

آرٹیکل :

 

  " آگ کا دریا "

ازقلم عنزہ یونس

 

سنو اے ساکنان بزم گیتی

ندا آ رہی ہے یہ آسماں سے

کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر

غلامی کی حیاتِ جاوداں سے

 

ہندوستان میں آزادی کا سورج طلوع ہونے میں کچھ ہی گھنٹے باقی تھے,علاقے سرحدیں,چھاؤنیاں تقسیم کی جا چکی تھیں۔ فیصلے کے مطابق جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ان کا الحاق  Indian Occupied kashmir) سمیت پاکستان کیساتھ قرار پایا تھا  مسجدوں مندروں میں تقسیم کے اعلانات کیے جا رہے تھے,کہیں خوشی کی کیفیت تھی تو کہیں غم کا ماحول کہیں شادیانے بج رہے تھے تو کہیں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ہندوستان چونکہ کئ قوموں کا گڑھ رہا تھا لہذا تقسیم کہ وقت احساسات اور ردعمل بھی مختلف تھے,ہندی مسلمان آزادی کہ لیے بے چین تھے ان کی آنکھیں نئی آزاد سرزمین کو دیکھنے کے لیے بےقرار تھیں ان کہ دل خوف و مسرت سے بیک وقت نبرد آزما تھے,جہاں اپنوں سے بچھڑنے کا غم انہیں  سکون لینے نہیں دے رہا تھا, وہیں آزادی کی خوشی ان کے چہروں سے چھلک رہی تھی

مسلمانوں کہ برعکس ہندو اور سکھ اس تقسیم سے نالاں اور کسی قدر مشتعل تھے۔انھیں دھرتی کی تقسیم کسی طور ہضم نہیں ہو رہی تھی

ان کہ نذدیک تقسیم کا فیصلہ غیر ضروری اور احمقانہ تھا,چونکہ اکثریت میں ہندو تھے لہذا وہ خود کو حکومت اور حقوق کا اصل وارث قرار دیتے تھے جو کہ غیر منصفانہ اور غیر آئینی تھا

مزموم مقاصد کہ حصول کی خاطر انہوں نے دیگر اقوام کو ساتھ ملایا اور آزادی کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے

جلاؤ گھیراؤ سے لے کر قتل و غارت عصمت دری تک ایسا کونسا ظلم ہے جو ہندی مسلمانوں پر نہ ڈھایا گیا ہو؟

جب آزادی کہ پروانے خوابوں کی شمع جلائے آزاد ریاست کی جانب گامزن ہوئے تو رات تاریک تھی سروں پہ چاند پوری آب و تاب کیساتھ چمک رہا تھا دور دور تک پھیلے دیو ہیکل درخت ماحول میں پر اسراریت پیدا کر رہے تھے۔دشمن کہ اچانک حملے کا خوف اپنی جگہ موجود تھا,عورتیں خوف و ہراس سے بےکل بھاری چادروں میں دبکی کسی قدر سہمی ہوئی تھیں,ایسے میں ننھے معصوم بچے دودھ کہ لیے بلکتے تو مائیں ان کہ منہ پہ جھٹ سے ہاتھ رکھ لیتیں اور یوں بچے کی' آہ 'سینے میں ہی دم توڑ جاتی۔نوجوان نئی سرزمین پہ قدم دھرنے کو بیتاب تھے وہ جگہ جہاں وہ اور ان کے آباء صدیوں قیام پزیر رہے تھے انھیں پرائی اور اجنبی معلوم ہونے لگی تھی۔ہندو مسلم اتحاد پارہ پارہ ہو چکا تھا ,مورخ نئی پہچان نئی تاریخ لکھ رہا تھا,یہ قافلے اپنی جھونک میں چلے جا رہے تھے۔ان میں سے کئ قافلے دشمن کہ ہاتھو لٹ چکے تھے کئ عورتوں کی عصمت تارتار ہو چکی تھی,عزت کے تحفظ کی خاطر کئ عورتیں اندھے کنووں کی نظر ہو گئ تھیں۔جگہ جگہ موت گھات لگائے بیٹھی تھی مگر عزم و ہمت کہ یہ پیکر اپنوں کی دائمی جدائی کا بار سینوں پہ لادے اشکبار آنکھوں سے چلے جا رہے تھے

جان و آبرو لٹاتے مال و متاع قربان کرتے

 

شہر در شہر گھر جلائے گئے

یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے

کیا کہوں کس طرح سر ِ بازار

عصمتوں کے دیے بجھائے گئے

 

ان کی بس ایک ہی دھن تھی بس ایک ہی منزل,پاکستان جہاں انھیں پہنچنا تھا

جان و دل ہتھیلی پہ سجائے تکبیر کی صداؤں میں وہ بڑھ رہے تھے

نئی راہگزر

نئی بستی کی طرف

جہاں ان کہ پیارے تو نہیں تھے شاید لیکن اپنے نما ہزاروں لاکھوں لوگ استقبال کے لیے کھڑے تھے

جن کی آنکھیں نم تھیں مگر ہونٹ مسکرا رہے تھے,جن کے دلوں میں فغاں تھی اور زبان پر آزادی کہ نغمے تھے,وہ ہجرت کر کہ آنے والوں کے لیے اپنی بانہیں وا کیے منتظر کھڑے تھے

بارڈر جو دونوں ملکوں میں حدود کی نشاندہی کر رہا تھا وہاں لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا گویا محشر برپا ہو چکا ہو,پاکستان سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو عارضی کیمپوں میں ٹھہرایا جا رہا تھا,جگہ کی شدید قلت تھی,اشیاء خوردونوش بھی زیادہ مقدرا میں دستیاب نہیں تھیں,علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان اپنی جگہ موجود تھا۔یوں ہجرت کرنے والوں کو نقل مکانی اور عزیز و اقارب کی دائمی جدائی کے بعد بے گھری کا دکھ بھی سہنا پڑ, رہا تھا  نیلے آسماں تلے زمیں کو بستر بنائے جب یہ قافلے نیم دراز ہوتے تو اپنوں کی جدائی ان کہ سینوں پہ دوہتڑے لگاتی گویا کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو

ان لٹے پٹے قافلوں کی آباد کاری حکومت اور افواجِ پاکستان کہ لیے بڑا چیلنج تھی جس سے نبرد آزما ہونے کہ لیے وہ دن رات ایک کر رہے تھے

ایسے میں ان کا لہو گرمانے کہ لیے شاعر اور ادیب میدان میں اتر آئے,قوم کے سپوتوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور ہجرت کرنے والوں کے دکھوں کو قرطاس پہ رقم کرنے لگے ان کہ زخموں پر لفظوں کہ پھائے رکھتے گو کسی طرح سے ان کے زخموں کو مندمل نہیں کیا جا سکتا تھا مگر لفظی بازیگروں نے جگر کے خون سے مہاجر بھائیوں کو گلہائے عقیدت  پیش کیا,ادیب ان کی ریاضتوں قربانیوں کو تاریخی اوراق پہ ہمیشہ کے لیے ثبت کرنے لگے

تقسیمِ ہند اور اس کے بعد پیدا شدہ غیر معمولی انتشار کو صفحہ قرطاس پہ ڈالنا قطعی آسان نہیں تھا,آزادی کہ وقت لاکھوں مسلمانوں کو جس دکھ تکلیف سے گزرنا پڑا اسے لفظوں میں بیان کرنا نہ ممکن تھا,لیکن آیندہ نسلوں کو تقسیمِ ہند کہ پیچھے کارفرما عوامل واقعات اور مقاصد سے روشناس کروانا چونکہ ذمہ داری تھا لہذا قلمی تصویر کشی سے سے 47 کی خاک و خوں سے عبارت تاریخ کو دہرایا گیا  تاکہ آیندہ نسلیں اس آئینہ خانے میں جھانک کر اس حدت گرمی اور تڑپ کو محسوس کریں جو تقسیمِ ہند کا اصل سبب تھیں

ہندوستان میں آزادی کا سورج طلوع ہونے سے قبل جس قیامت خیزی کا سامنا ہندی مسلمانوں نے کیا شاید ہی تاریخ میں کوئی اس کی نظیر ملتی ہو

" خون اور آگ "کا یہ دریا عبور کرنا سہل نہیں تھا اس میں لاکھوں جانیں گئیں,سینکڑوں عصمتیں تارتار ہوئیں بچے شہید کیے گئے ماؤں کی ممتا کا قتل ہوا,یہ قیامتیں سہنا بہت دشوار بہت کٹھن تھا,تقسیم ہند کے لمحات بہت بھاری بہت صبر آزما تھے جس کے نقوش اوراقِ زمانہ میں محفوظ رہیں گے

اور تاریخ یاد رکھے گی ان لوگوں کو جنہوں نے حق کی صدا پر لبیک کہا اور جان مال قلم اور اولاد سے جہاد کیا

اور بتایا۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کا مطلب کیا ہے؟

 

لا الہ الا اللہ ,لا الہ الا اللہ


Related Posts

Subscribe Our Newsletter